تصادم یا مصالحت
کلمہ حق
یہ بات تو حالات اور مصلحت پر مبنی ہے کہ کب مصالحت کی راہ اپنائی جائے اور کب تصادم کا راستہ اختیار کیا جائے؟ یہ فیصلہ مجھ جیسے طالب علم نہیں کر سکتے ، نہ ہی وہ لوگ یہ قضیہ نمٹا سکتے ہیں جنہیں اپنی ذاتی یا قومی مجبوریوں کی بناء پر ایوان ہائے اقتدار کے چکر لگانے پڑتے ہوں ۔ اس گتھی کو سلجھانے کےلئے تو ایسے ارباب علم و فہم کے ناخن تدبیر درکار ہیں جو ایک طرف علم و تقویٰ میں رسوخ کامل رکھتے ہوں تو دوسری طرف اسلاف کی حمیت دینی کے سچے وارث ہوں۔ جن کے دامن طمع و لالچ کے دھبوں سے پاک صاف ہوں اور جن کی اجلی قبا پر مرعوبیت کا کوئی داغ نہ ہو۔
لیکن موجودہ صورتحال میں صرف یہ کہہ دینا کہ علماء دیوبند انگریز سے بھی تصادم کی راہ اختیار نہیں کرتے تھے ، نہ تو مکمل طور پر صحیح ہے نہ ہی کسی مسئلے کا حل۔اکابرین دیوبندؒ کی طرف گاندھی جی کے نظرےے ''اہنسا'' یعنی عدم تشدد کی نسبت کرنا نہ صرف اسلاف امّت پر ایک غلط الزام ہے بلکہ تاریخ دیوبند کی عظیم روایات کا خون کرنے کے مترادف ہے ۔
کہاں ہماری روشن خیالی اور وسعتِ قلبی اور کہاں اکابرینِ دیوبندؒ کی انگریز دشمنی؟ آئیں اگلی سطور میں چند سچے اور کھرے حقائق ملاحظہ کریں:
١۔حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیبؒ تحریر فرماتے ہیں:
''شاملی کا میدان اور دارالعلوم کی زمین ایک ہی حقیقت کے دو رخ تھے ، فرق تیغ و سناں اور قلم و زبان کا تھا''(آزادیئ ہندوستان کا خاموش راھنما)
١٨٥٧ء میں حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ اور قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ضلع سہارنپور کے قریب تھانہ بھون اور شاملی میں انگریز کے خلا ف مسلح جہاد کیا تھا گویا دارالعلوم دیوبند کی بنیاد میں وہی ایمانی جذبات کارفرما تھے جو میدان جہاد میں دشمن کے خلاف ہوا کرتے ہیں ۔
٢۔بات صرف شاملی کے معرکے تک محدود نہیں تھی بلکہ اکابرین دیوبند کی عام شہرت بھی انگریز دشمنی ہی کی تھی، چنانچہ حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ لکھتے ہیں کہ جب ١٩٠٣ ء میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں فساد ہوا تو مجسٹریٹ مظاھر حسن نے دھمکی دیتے ہوئے کہا :
''میں باور صاحب (انگریز حاکم) سے کہہ دوں گا کہ یہ سارا فساد غدر کے مشہور باغی رشید کا ہے اور یہ سب لوگ اس کے جرگے کے ہیں''(تذکرۃ الخلیل)
گویا امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ انگریز کے مشہورو معروف باغی تھے۔
٣۔حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی انگریز دشمنی تو کہنا چاہئے کہ ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے ، آپ کی وفات سے صرف ایک ماہ پہلے ٢٩ اکتوبر ١٩٢٠ء کو علی گڑھ کے مقابلے میں جامعہ ملیہ کے قیام کا فیصلہ ہوا ۔آپ کو شرکت اور صدارت کی دعوت دی گئی ، شدید بیماری کی وجہ سے سب جاننے والے سفر کی مخالفت کر رہے تھے لیکن اس مرد مجاہد نے ارشاد فرمایا:
''اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہو گی تو اس جلسہ میں ضرور شریک ہوں گا''(نقش حیات)
انگریز بھی آپ کی اس سرشت سے خوب واقف تھا چنانچہ:
''مسٹن گورنر یوپی کہا کرتا تھا کہ ہم اگر مولوی محمود حسن کو جلا کر خاکستر کر دیں تو اس کی خاک بھی ہم سے نفرت کرے گی''(نقش حیات)
ہمارا رویہ جہاد اور شہادت کے بارے میں کیا ہے اور حضرت شیخ الہندؒ کا طرزعمل کیا ہے؟
''مولانا شبیر احمد صاحب مرحوم کا بیان ہے حضرتؒ نے تھوڑی دیر آنکھ کھول کر چھت کی طرف دیکھا ، پھر فرمایا کہ مرنے کا تو کچھ افسوس نہیں ہے مگر افسوس ہے کہ میں بستر پر مر رہا ہوں، تمنا تو یہ تھی کہ میں میدان جہاد میں ہوتا اور اعلاء کلمۃ الحق کے جرم میں میرے ٹکڑے کئے جاتے۔اس کے بعد بلند آواز سے اﷲ اﷲسات مرتبہ کہا ، آٹھویں مرتبہ آواز بند ہو گئی(یعنی انتقال ہو گیا)'' (نقش حیات)
٤۔حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے خالقدینا ہال میں انگریزی عدالت کے سامنے جس''تصادم'' کا ثبوت دیا تھا ، وہ واقعہ ہم دو تین شمارے پہلے ''ہمارا کراچی''کے عنوان سے پیش کر چکے ہیں۔ ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
''١٩٣٢ء میں جمعیت علماءِ ھند کی طرف سے آپ ڈکیٹر بنائے گئے،ہر ایک ڈکیٹر کو دہلی جا کر سول نافرمانی کرنا اور گرفتار ہونا تھا۔آپؒ کی طبیعت سخت علیل تھی، ٹانگوں میں زخم تھا ، چلنا پھرنا دشوار تھا۔
مولانا انور شاہ کشمیریؒ کو مقصد روانگی کاعلم ہو اتو کہلا بھیجا کہ اس حالت میں سفر نہ کریں۔تاریخ بدل دیجئے ۔ حضرت مدنی ؒنے گوارا نہ فرمایا'اسی حالت میں روانہ ہو گئے۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکا تھا،دیوبند اسٹیشن پر کثرت ہجوم کی وجہ سے پولیس کو جرأت نہ ہوئی ۔دیوبند سے اگلے اسٹیشن پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے وہ نوٹس پیش کیا،آپؒ نے فرمایا میں انگریزی نہیں جانتا ۔ اس نے کہا قلم دیجئے تاکہ اردو میں ترجمہ کر دوں۔حضرتؒ نے فرمایا کیا خوب؟اپنے ذبح کرنے کےلئے اپنا ہتھیار دے دوں ۔وہ خاموش ہو گیا اور گاڑی چل دی۔
مظفر نگر اسٹیشن پر ترجمہ کر کے لایا ۔ اس میں لکھا تھا کہ حاکم سہارنپور کی طرف سے آپ کو نوٹس دیا جاتا ہے کہ آپ آگے نہ جائیں ورنہ اپنے آپ کو گرفتار سمجھیں۔فرمایا اب میں سہارنپور کی حدودسے آگے ہوں اس لئے یہ نوٹس قابل تعمیل نہیں۔افسران یہ جواب سن کر حیران ہوئے۔ بعد میں مجسٹریٹ نے جو ساتھ تھا ،کہا کہ آپ کو اپنے خصوصی اختیارات کی بناء پر نوٹس دوں گا۔ چنانچہ اس نے اسی اسٹیشن پر دوسرا تحریر ی نوٹس پیش کیا اور گرفتاری عمل میں آئی''(بیس بڑے مسلمان)
یہاں اس بات کا ذکر کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کوحضرت مدنیؒ کی گرفتاری کی خبر ملی تو آپ نے رنج و حزن کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے خیال نہیں تھا کہ مولانا مدنی سے مجھے اتنی محبت ہے۔ جب حاضرین مجلس میں سے کسی خادم نے یہ عرض کیا کہ مولانا مدنی ؒ تو اپنی خوشی سے گرفتار ہوئے ہیں تو حضرت حکیم الامت ؒ نے فرمایا کہ آپ مجھے اس جملے سے تسلی دینا چاہتے ہیں ، کیا حضرت حسین رضی اﷲ عنہ یزید کے مقابلے میں اپنی خوشی سے نہیں گئے تھے؟ مگر آج کون ایسا شخص ہو گا جس کو اس حادثے سے رنج نہ ہوا ہو۔
(شیخ الاسلام ؒ کے حیرت انگیز واقعات)
٥۔امام العصر حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒکا عام تعارف ایک علمی شخصیت کا ہے ۔ انکے بارے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں:
''اس موقع پر خیال آتا ہے کہ بسا اوقات ان کی زبان مبارک سے فقیر ان الفاظ کو سنا کرتا تھا ،فرماتے کہ مجھے کچھ نہیں چاہئے صرف دو پیالیاں کشمیری چائے کی ، دو بسکٹ ، ایک نیزہ اور ایک گھوڑا ، بظاہر مطلب مولانا کا یہ ہوتا کہ اصلی اور صحیح زندگی ایک مومن مسلم کی یہ ہے کہ میدان میں اپنا وقت صرف کرے، ان کے دل کی یہی حسرت حقیقی حسرت تھی'اس کے مقابلے میں درس و تدریس ، تعلیم و تعلم کے جذبات کی ان کی نظروں میں کوئی قدروقیمت نہ تھی''(احاطہئ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن)
یہاں یہ بتانے کی ضرورت تو بظاہر نہیں ہے کہ نیزے اور گھوڑے کے ذریعے دشمن سے تصادم ہوتا ہے یا عدم تشدد کا نظریہ پروان چڑھتا ہے۔
٦۔حضرت شیخ التفسیر امام الاولیاء مولانا احمد علی لاہوریؒ کے پیر ومرشد ، امروٹ شریف ضلع سکھر کے عارفِ کامل ، مجاہد کبیر حضرت مولانا تاج محمود امروٹی ؒ کا واقعہ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔آپ کو معلوم ہوا کہ انگریز انتظامیہ ایک نہر کھدوا رہی ہے، جس کے راستے میں ایک مسجد آرہی ہے اور حکومت کا پروگرام یہ ہے کہ اس مسجد کو شہید کر دیا جائے گا۔ حضرت مولانا تاج محمود امروٹی ؒ نے مسجد کی شہادت کی اطلاع ملنے پرعمومی اعلان جہاد فرما دیا۔ آپ کے دستِ حق پرست پر اس موقع پر جس شخص نے دوسرے نمبر پر بیعت جہاد کی، وہ حضرت شیخ الہند ؒ کے شاگرد 'مرشد کامل حضرت مولانا عبداﷲ بہلویؒ تھے ۔ یہ حضرات اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ حکومت کو اپنے منصوبے میں ترمیم کرنی پڑی او ر وہ مسجد اپنی جگہ قائم و دائم رہی۔(مستفاداز انوار بہلویہ)
٧۔امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی پوری زندگی جہد مسلسل اور باطل سے پرزور تصادم کی آئینہ دار ہے۔تفصیل کا تو یہ موقع نہیں لیکن صرف اسی سے اندازہ کر لیں کہ آپؒ اپنی زندگی میں کل گیارہ مرتبہ گرفتار ہوئے اور قیدو نظربندی کی کل مدت نو سال دو ماہ اور تقریباً ٢٤ دن بنتی ہے۔آپ اپنی حیات مستعار کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آدھی زندگی جیل میں کٹ گئی اور آدھی ریل میں۔
یہ سات مثالیںتو محض نمونے ہیں ورنہ اکابرین دیوبندؒ کی تاریخ 'باطل سے تصادم کے واقعات سے لبریز ہے اور ان کی سیرت و کردار سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی ان کے عزم و استقلال، حمیت و غیرت اور جرأت و شجاعت کا انکار نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب جہاد کےلئے حالات سازگار ہوئے اور روس کے خلاف سرزمین افغانستان پر حق و باطل کے تصادم کی نئی داستان رقم ہونے لگی تو جہاد کا فتویٰ دینے والی عظیم شخصیات میں حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ اور حضرت مولانا عبدالحقؒ پیش پیش تھے ۔حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے دارالعلوم دیوبند میں ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اہل دیوبند کی تین خصوصیات ہیں۔پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ حضرات توحید و سنت کی دعوت دیتے ہیں اور اس کی حمایت میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں ، فقہی اختلافات کو نہیں اچھالتے،دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ حضرات تعلق مع اﷲ اور اصلاحِ باطن کا اہتمام کرتے ہیں اور تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اعلاءِ کلمۃ اﷲ کےلئے جذبہئ جہاد اور حمیت دینی ان حضرات میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ پھر فرمایا کہ کوئی دیوبندی' اس وقت تک دیوبندی نہیں ہو سکتا جب تک اس میں یہ تینوں خصائص جمع نہ ہوجائیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا کے بہت سے حالات اور لوگوں کے کئی خیالات بدل گئے لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ نہ قرآن کی آیات بدلیں ، نہ احادیث کی تصریحات بدلیں اور نہ ہی اکابر کی عظیم روایات بدل سکتی ہیں۔ ہمیں صرف اتنا دیکھ لینا چاہئے کہ کہیں ہمارے قلبی رجحانات اور جذبات تو نہیں بدل گئے ؟؟؟
|